اب ذرا اپنے گردو پیش کا جائزہ لیجئے ‘چاول کے دانے دھوتے وقت نالیوں اور گٹروں میں بہہ جاتے ہیں ، خصوصاََ جن گھروں میں کھانا ملازم تیار کرتے ہیں ، وہاں کا اللہ تعالیٰ ہی حافظ ہے ۔ گھی ،تیل اور اجناس بے دریغ ضائع کی جاتی ہیں حتیٰ کہ پانی جیسی نعمت کی بھی قدر نہیں
انسانی زندگی پر تربیت اور ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے اور اس کے عملی نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔ میں نے جب آنکھ کھولی، تو اپنے گرد و پیش سادگی، شرافت اور قناعت کا ماحول پایا، حالانکہ اس وقت آمدنی سینکڑوں میں تھی اور پھر گھروں میں اشیائے ضروریات بھی کثرت سے نہ تھیں مگر ہر فرد مطمئن اور پر سکون تھا۔ آج ماشاء اللہ آمدن ہزاروں میں ہے اور کھانے پینے کی بھی بھر مار ہے مگر پھر بھی بھر مارہے مگر پھر بھی یہ راگ ہر ایک زبان پر ہے ۔’’ جناب کیا کریں ، کاروبار مندا ہے ‘‘۔ حقیقت خیر وبرکت ختم ہو چکی اور لوگوں کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے ۔ شکوہ شکایت کا بازار گرم ہے مگر ہم اپنے روپے اور طور طریقوں کی طرف توجہ دینا گورانہیںکرتے۔ آیئے! ذرا ماضی میں جھانکیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کس طرح برکتیں و رحمتیںنازل ہوتی تھیں۔ یکم تاریخ آتی تومیرے والد بزرگوار مرحوم مجھے سائیکل میں بٹھاتے اور کنک منڈی پہنچتے۔ وہ گندم کا بھائو طے کرتے اور آرڈر دیتے ۔ دکاندار پھر گندم تو لنا شروع کرتا۔ ترازوکا پلڑا بھرتا، تو اس کی زبان پر بسم اللہ ہوتا۔ گندم پسی، آٹا گھر آیا، تو والدہ صاحبہ نے بزرگوں کی تعلیم کے مطابق بسم اللہ پڑھ کر آٹے کا پیالہ نکال کر الگ رکھ دیا۔ یہ پیالہ اللہ تعالیٰ کے نام پر فقیر کو ملے گا۔ آٹا گوندھنے کے بعد پانی کھرے یا نالی میں نہیں کسی گملے یا اونچی جگہ پھینکا جاتا تا کہ اس پر کسی کا پائو ں نہ پڑے۔ گرمی سردی جوبھی سبزی گھر میں آتی، پکا کر سب سے پہلے ایک پلیٹ سالن اللہ تعالیٰ کے نام کی الگ نکال لیتے اور پھر گھر والوں کو برتایا جاتا۔ اسی طرح جو نیا پھل گھر آتا ، وہ بھی حسب مقدار اللہ تعالیٰ کےنام کا نکال کر کسی غریب یا فقیر کو دیا جاتا۔ کھانا دستر خوان پر لگتا۔ بچوںکو تلقین کی جاتی کہ بسم اللہ پڑھ کر شروع کریں اور اپنے آگے سے کھائیں ۔ بولنے سے منع کر دیا جاتا۔ کھانے کے بعد شکر الحمداللہ کہلوایا جاتا ۔ دستر خوان پر جس قدر بھورے (روٹی کےٹکڑے)یا چاول گرے ہوتے ، انہیں اٹھا کر دیوار پر ڈالا جاتا کہ پرندچُگ لیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی عزت و قدر اس قدر ہوتی تھی اور اعلیٰ اقدار زندہ تھیں ، تو پھر خیرو برکت کیونکر نہ ہوتی؟
اب ذرا اپنے گردو پیش کا جائزہ لیجئے ‘چاول کے دانے دھوتے وقت نالیوں اور گٹروں میں بہہ جاتے ہیں ، خصوصاََ جن گھروں میں کھانا ملازم تیار کرتے ہیں ، وہاں کا اللہ تعالیٰ ہی حافظ ہے ۔ گھی ،تیل اور اجناس بے دریغ ضائع کی جاتی ہیں حتیٰ کہ پانی جیسی نعمت کی بھی قدر نہیں۔ اب رات کو مائیں بچوں کو کوئی نصیحت بھری کہانی نہیں سناتی اور نہ ہی باقاعدگی سے کلمے یاد کرواتی ہے ۔ پہلے یہ مشق روزانہ ہوتی تھی اور بچوں کو تعلیم و تربیت دینا والدین اپنی خاص ذمے داری سمجھتے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں